Русские видео

Сейчас в тренде

Иностранные видео


Скачать с ютуб Brief Introduction | Shabbir Ahmed | مختصر تعارف | شبیر احمد в хорошем качестве

Brief Introduction | Shabbir Ahmed | مختصر تعارف | شبیر احمد 2 недели назад


Если кнопки скачивания не загрузились НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу страницы.
Спасибо за использование сервиса savevideohd.ru



Brief Introduction | Shabbir Ahmed | مختصر تعارف | شبیر احمد

#podcast #urdu #shortstory #kolkata #westbengal Brief Introduction | Shabbir Ahmed | مختصر تعارف | شبیر احمد شبیر احمد کا بچپن، جس میں ان کی ابتدائی تعلیم اور تربیت کا احوال ملتا ہے، ایک ایسی مثال پیش کرتا ہے جس میں روایت اور محبت کی گہری جڑیں نظر آتی ہیں۔ شبیر احمد، جو بعد میں ایک معروف فکشن نگار کے طور پر سامنے آئے، کلکتہ کی گلی محلوں میں ایک عام مگر دلچسپ بچپن گزارا۔ ان کا ادبی سفر اور تخلیقی دنیا کی جانب رجحان ان کی ابتدائی زندگی میں چھپے کچھ منفرد تجربات اور حالات کا نتیجہ تھا، جس نے ان کے شعور کومہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور ان کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے۔ شبیر احمد کی پیدائش یکم جون 1963 کو کلکتہ میں ہوئی۔ ان کے والد کی بھی پیدائش اسی کلکتہ شہر میں ہوئی تھی، جبکہ ان کے دادا اتر پردیش سے ہجرت کرکے یہاں آ بسے تھے۔ یہ خاندان ابتدا سے ہی کلکتہ سے جڑا رہا اور اس طرح اس شہر کی گلیاں، محلے اور گوناگوں مظاہرات شبیر احمد کی زندگی کا اہم حصہ بن گئے۔ ان کی تعلیم کا آغاز رسمی اسکولی نظام سے پہلے ہی ہوچکا تھا، جس میں ان کے پڑوسی "استاد ابا" کا اہم کردار رہا۔ استاد ابا ایک ریلوے ملازم تھے اور اپنے بچے ہوئے اوقات کو علاقے کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں صرف کرتے تھے، وہ بچوں کو عربی، اردو اور بنیادی ریاضی پڑھایا کرتے تھے۔ شبیر احمد فرماتے ہیں، ان کے بچپن کی تعلیم کا انداز رسمی نہیں تھا۔ انھوں نے استاد ابا کی نگرانی میں جو کچھ تعلیم حاصل کی، وہ ایک غیر رسمی اور ہمدردانہ ماحول میں کی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں دینی اور دنیاوی تعلیم کو ایک ساتھ دیے جانے کا رجحان تھا۔ شبیر احمد کے استاد کی شفقت اور محبت سے بھری تعلیم نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ استاد ابا اور ان کی بیوی انہیں اپنے بچوں کی طرح مانتے تھے، جس سے انہیں ایک جذباتی و محبت بھرا ماحول ملا۔ ان کا یہ انداز تعلیم محض معلومات فراہم کرنے تک محدود نہیں تھا بلکہ اپنے اندر تربیت کا ایک جامع تصور لیے ہوئے تھا، جس میں بچوں کو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں شعور بخشا جاتا تھا۔ شبیر احمد کے بچپن کی یہ تعلیم و تربیت اس بات کی علامت ہے کہ رسمی تعلیم کے بغیر بھی ایک بچے کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما کی جا سکتی ہے، اگر اس کی بنیاد محبت، شفقت اور انسان دوستی پر رکھی جائے۔ آج کے دور میں، جب تعلیم کا زیادہ زور رسمی اداروں پر ہے، شبیر احمد جیسے فکشن نگاروں کی ابتدائی زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بچوں کی تعلیم میں غیر رسمی تربیت کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ اور اس کا اثر انسان کی زندگی پر تاحیات قائم رہتا ہے۔ شبیر احمد کی پرائیمری اور سیکنڈری تعلیم کا سفر کسی روایتی طالب علم سے بالکل مختلف مگر دلچسپ تجربات سے بھرا رہا۔ ان کا باقاعدہ تعلیمی سلسلہ کلکتہ کے ایک مقامی اسکول سے ہوا جس کا نام مومن ہائی اسکول تھا۔ وہ یہاں براہِ راست چوتھی جماعت میں داخل کردیے گئے۔ اس وقت ان کی عمر محض آٹھ سال تھی۔ اس طرح غیر رسمی تعلیمی ماحول سے نکل کر چوتھی جماعت میں اچانک کود پڑنا ان کے لیے کافی چیلنجنگ رہا۔ اسکول کی تعلیمی فضا کو شبیر احمد نے زیادہ معاون نہیں پایا۔ اساتذہ کے درمیان باہمی تنازعات اور رسا کشی کا ماحول تھا، جس کی وجہ سے تعلیمی معیار متاثر ہوتا تھا۔ ایسے ماحول میں ان کی دلچسپی تعلیم میں کم ہوتی گئی، جس کے سبب وہ اکثر اسکول سے غیر حاضر رہنے لگے اور آس پاس کے گلی محلوں میں وقت گزارنے لگے۔ کبھی کبھی تو وہ کتابیں چھپا کر سنیما ہالز میں گھس جاتے۔ اس طرح رفتہ رفتہ ان کا رجحان فلم بینی کی طرف بڑھتا گیا اور اسکول سے فرار ہو کر سنیما ہالز میں وقت گزارنے لگے۔ انہیں فلمیں دیکھنے کی ایسی لت لگی کہ تقریباً ہر نئی فلم کا انہیں علم ہوتا اور وہ دوستوں کے ساتھ جا کر سنیما ہالز میں بیٹھ جاتے۔ تعلیمی سے یوں توجہی کا ایک اہم سبب اردو کے متعلق ان کا رویہ تھا جو ایک خاص ماحول کا پروردہ تھا۔ وہ اردو کو مولوی ملاؤں کا مضمون سمجھنے لگے تھے۔ دراصل اسکول کے سامنے ایک بڑی سی مسجد تھی جس کے پیش امام اس اسکول میں اردو مضمون پڑھایا کرتے تھے۔ وہ ایک ٹانگ میز پر رکھتے اورکتاب کھول کر خود ہی پڑھتے اور خود ہی سمجھتے۔ کوئی بھی بچہ ان کی باتیں توجہ سے نہیں سنتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اردو ادب سے ان کی رغبت کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ جب وہ اسکول فائنل امتحان کے قریب تھے، تو انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان کے نصاب میں کون کون سی غزلیں، نظمیں اورکہانیاں شامل ہیں۔ وہ اپنی تعلیمی زندگی کو بس کسی طرح گزارتے رہے۔ اسکول کے آخری سال میں ایک استاد، غلام حیدر صاحب، کی نئی نئی تقرری ہوئی۔ وہ لائف سائنس کے ٹیچر تھے۔ غلام حیدر صاحب کاآنا شبیر احمد کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ دسویں درجہ میں ششماہی امتحان کے بعد بچوں میں رزلٹ تقسیم کرتے وقت انھوں نے پیشین گوئی کی کہ 76 طلبا کی اس جماعت میں صرف 14 بچے ہی اسکول فائنل کے امتحان میں پاس ہوں گے۔ انھوں نے فرداً فرداً نام بھی گنوادیے۔ اور شبیر احمد کو حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا،" اور تم،تم تو پانچ سال بعد بھی پاس نہیں کر سکو گے۔ انھیں یہ بات خل گئی اور انھوں نے اسے چیلنج کے طور پرقبول کیا ۔تن من سے جٹ گئے۔ اور جب اسکول فائنل کا نتیجہ نکلا تو حیدر صاحب کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی۔ 14 بچے ہی کامیاب ہوئے، یہ الگ بات ہے کہ ان 14 کامیاب طلبہ میں شبیر احمد بھی شامل تھے، حالانکہ ان کا نمبر تشفی بخش نہیں تھا۔

Comments